اگر سخت ورزش کرتے کرتے یکدم ورزش ختم کرلی جائے تو ہوسکتا ہے کہ خون عضلات ہی میں رہ جائے اور دماغ یا دل یا معدے میں واپس نہ جائے۔ دماغ میں جب پوری مقدار میں خون نہیں ہوگا تو اس سے غنودگی کی شکایت ہوسکتی ہے۔
آپ نے ورزش کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا ہے؟ گویا آپ نے صحت مند رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اچھی بات ہے! لیکن محض وزن اٹھالینا یا بھاگ دوڑ اچھل کود کرلینا ہی ورزش نہیں ہے نہ بے تکی اور بے ڈھب ورزشوں سے آپ صحت و تندرستی حاصل کرسکتے ہےں۔
ورزش کرنے کیلئے سب سے پہلے مستقل مزاجی ضروری ہے۔ اپنے مزاج پر غور کیجیے کہ آپ شوق اور جذبات میں آکر ابتدا میں تو خوب ورزش کرلیں لیکن چند ہفتوں یا مہینوں کے بعد یہ جوش ٹھنڈا پڑجائے۔ یہ انداز نہ صرف نامناسب ہے بلکہ آپ کے جسم اورصحت کیلئے خطرناک بھی ہے۔
جو لوگ نئے نئے ورزش کی ابتدا کرتے ہیں ان کے متعلق سب سے زیادہ یہی شکایت ملتی ہے کہ وہ زیادہ وزن کے ساتھ زیادہ دیر تک ورزش کررہے ہیں۔ اسی طرح ان کے عضلات درد کرتے ہیں تو وہ اس درد کو یہ سوچ کر نظرانداز کردیتے ہیں کہ یہ درد عضلات میں بڑھوتری کی علامت ہے۔ کئی نوجوان یہ بھی سوچتے ہیں کہ ورزش کرنے سے جب تک جسم میں درد نہ ہو‘ ورزش کا کوئی فائدہ نہیں ہے لیکن ان کا یہ خیال غلط ہے۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ عضلات میں یہ درد اس وقت ہوتا ہے جب آپ کوئی نئی ورزش کا آغاز کرتے ہیں اور یہ درد اس بات کی علامت ہوسکتا ہے کہ آپ حد سے زیادہ ورزش کررہے ہیں۔ چنانچہ ایسی صورت میں ورزش کے اوقات اور طریق کار میں تبدیلی ضروری ہے۔
ٹارگٹ زون
ہر جسم کے عضلات اور نظام قلب وشرائن کی صحت کیلئے ایک خاص مقدار میں ورزش کافی ہوتی ہے۔ یہ ورزش کی وہ مقدار یا سطح ہوتی ہے جو اگرچہ جسمانی تندرستی میں اضافے کے لیے تو ضروری ہوتی ہے لیکن محفوظ حد سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ اگر آدمی تندرستی کی محفوظ حد سے زیادہ ورزش کرے تو اس کیلئے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ آپ کو ورزش کے پروگرام پر عمل کرنے سے پہلے اسی ”ٹارگٹ زون“ کے بارے میں معلوم کرنا ہے۔ اس مقصد کیلئے ٹارگٹ زون کا چارٹ آپ کی مدد کرے گا۔
ہر شخص کا ٹارگٹ زون اس کی زیادہ سے زیادہ ایروبک طاقت کا 60 سے 80 فیصد ہوتا ہے۔ ساٹھ فیصد سے کم پر اسے ورزش کے نسبتاً کم صحیح فوائد حاصل ہوتے ہیں اور 80 فیصد سے زیادہ پر اسے اپنی سکت سے زیادہ مشقت کرنی پڑتی ہے۔
ٹارگٹ زون وہ نکتہ یا مقام ہے کہ جس پر پھیپھڑے‘ دوران خون کیلئے آکسیجن تیار کرتے ہیں لیکن یہ آکسیجن خون کے ذریعے سے عضلات میں منتقل نہیں ہوسکتی تاکہ عضلات زیادہ ورزش کے نتیجے میں زیادہ تیزی سے مزید توانائی تیار کرسکیں۔ چنانچہ اس مقام پر جسمانی عضلات ایروبک طور پر مزید سرگرم نہیں رہ پائے۔ آکسیجن کی ایک محدود فراہمی کے باعث دل بھی زیادہ تیزی سے دھڑکنے کے قابل نہیں رہتا۔
عام طور پر 20 سے 30 منٹ تک ٹارگٹ زون کی کیفیات برقرار رہنے سے نظام قلب پر خوشگوار اثر مرتب ہوتا ہے۔یہ بھی ضروری ہے کہ ٹارگٹ زون تک پہنچنے سے پہلے روزانہ ورزش شروع کرتے ہوئے پانچ سے دس منٹ تک جسم کو گرم اپ کرلیا جائے۔ اس وارم اپ سے اول تو دل‘ دوران خون اور عضلات اچانک ورزش کے خدشے سے دوچار نہیں ہوں گے اور دوم جسم کو گرمانے سے جوڑوں اور عضلات کو کسی چوٹ یا جھٹکے سے بھی محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ اس طرح ورزش کرنے کے بعدبھی پانچ سے دس منٹ تک ہلکی پھلکی ورزش کرکے جسم کو بتدریج ٹھنڈا کیا جائے۔
اگر سخت ورزش کرتے کرتے یکدم ورزش ختم کرلی جائے تو ہوسکتا ہے کہ خون عضلات ہی میں رہ جائے اور دماغ یا دل یا معدے میں واپس نہ جائے۔ دماغ میں جب پوری مقدار میں خون نہیں ہوگا تو اس سے غنودگی کی شکایت ہوسکتی ہے۔ دل کی جانب خون کم مقدار میں جائے گا تو اسے درکار مقدار کو پورا کرنے کیلئے زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔ اس طرح معدے میں کم مقدار میں خون پہنچنے سے متلی کی شکایت ہوسکتی ہے۔
نبض کس طرح گنیں؟:یہ بات جاننے کیلئے کہ کیا آپ ٹارگٹ زون میں ہیں‘ اپنی نبض کی رفتار سے مدد لیجیے۔ نبض کی رفتار عام طور پر تقریباً وہی ہوتی ہے کہ جو قلب کی دھڑکنے کی رفتار۔ اس طرح آپ نبض کی رفتار سے بہ آسانی قلب کی رفتار معلوم کرسکتے ہیں۔ نبض کی رفتار معلوم کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ کلائی پر نبض کو (انگوٹھے والی سمت سے) دوسرے ہاتھ کے انگوٹھے یا انگلیوں سے آہستہ سے دبا کر اس کی حرکت کو محسوس کریں۔ نبض ہمیشہ ورزش ختم کرنے کے فوراً بعد شمار کیجئے‘ اس لیے کہ آہستہ آہستہ نبض کی رفتار کم ہوکر معمول کی رفتار پر آجاتی ہے۔
اب نبض بتائے گئے طریقے کے مطابق پکڑ کر چھے سیکنڈ تک اس کی حرکت کو محسوس کریں اورگنیں۔ پھر ایک منٹ کا شمار کرنے کیلئے اس کو دس سے ضرب دے دیجئے۔ اس طرح آپ کے پاس فی منٹ دل کی دھڑکن کا حساب آجائے گا۔
ورزش کی اقسام
ہرطرح کی ورزش یکساں طور پر جسمانی تندرستی کیلئے مفید نہیں ہوتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ کس ورزش سے آپ کا نظام قلب متاثر ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ صرف وہ ورزشیں قلبی نظام کو صحت اور تندرستی کا ذریعہ بنیں گی جن سے مستقل طور پر دوران خون‘ دل اور عضلاتی ڈھانچے پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔ مثال کے طورپر وزن برادری کی ورزشوں سے عضلات سخت ہوتے اور تن جا تے ہیں جس کی وجہ سے عضلات میں کم خون گزرتا ہے۔ اس کے برخلاف ایروبک ورزشوں (جاگنگ‘ دوڑ ناوغیرہ) کے دوران مستقل طور پر ایک ترتیب سے عضلات میں تناو آتا ہے اور پھر وہ حالت سکون میں آجاتے ہیں۔ اس طرح عضلات میں بہتر طور پر خون کی روانی جاری رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایروبک ورزشوں کو اردو میں ”ہوا زا ورزشیں“ کہتے ہیں‘ یعنی ہوادار ورزشیں۔ بہ الفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جسمانی تندرستی اورنظام دوران خون و نظام قلب و شرائن کی صحت کیلئے ایروبک ورزشیں ہی کرنی چاہئیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایروبک ورزشیں (باڈی بلڈنگ یا وزن برداری کی ورزشیں) کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان ورزشوں کے اپنے دیگر فوائد ہیں مثلاً ان ورزشوں سے عضلات کی قوت میں ضرور اضافہ ہوتا ہے‘ ان سے دوران خون بھی بڑھتا ہے لیکن یہ ورزشیں قوت برداشت کو نہیں بڑھاتیں۔ نیز وزن برداری کی ورزشیں مستقل طور پر کی بھی نہیں جاسکتیں۔
ایروبک ورزشیں آہستہ آہستہ عضلات کو کافی مقدار میں خون کی فراہمی جاری رکھتی ہیں ایروبک ورزشیں ہفتے میں تین دن بیس منٹ کیلئے کرلی جائیں تو ایک عام آدمی کی جسمانی تندرستی کیلئے کافی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں